بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا:
1۔ بڑے مجرموں کے عروج و زوال کی سنت الہیہ
﴿وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا فِي كُلِّ قَرْيَةٍ أَكَابِرَ مُجْرِمِيهَا لِيَمْكُرُوا فِيهَا؛ اور اسی طرح ہر بستی میں ہم نے گناہگاروں کے اکابر (اور زعیم) بنا دیئے ہیں تاکہ وہاں اپنے مکر و فریب کا جال پھیلائیں﴾ [1]
یہ آیت انسانیت کی تاریخ میں ایک پائیدار قانون کی عکاسی کرتی ہے؛ ایسا قانون جس کے تحت ہر معاشرے میں طاقت اور دولت کے مالک افراد پیدا ہوتے ہیں جو اپنی چالاکی اور فریب سے معاشروں کو ایک بڑی آزمائش میں ڈال دیتے ہیں، جس سے حق اور باطل واضح ہو جاتے ہیں۔
ہمارے دور میں بھی اس الٰہی قانون کی مثالیں مغرب پر حاوی سیاسی دھڑوں کے رویوں میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ "ٹرمپ ازم" لبرل مغربی ڈھانچے میں ان ہی "اکابرِ مجرمین" کی ایک مثال ہے؛ یہ ایک ایسی دھڑا ہے جو نسل پرستی، مال اندوزی، تارکین وطن کی مخالفِ پالیسی اور مسیحی-صیہونی روابط کے ذریعے جدید استکبار کا مظہر بنا۔
مغربی تہذیب کے زوال کی کچھ نشانیاں
نیویارک کے میئر کے انتخابات میں "زہران ممدانی" کی جیت کا الٰہی سنتوں اور اہل بیت (علیہم السلام) کی تعلیمات کی روشنی میں جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ یہ واقعہ ایک 'مقامی تبدیلی' سے آگے بڑھ کر، 'لبرل مغربی نظام کے اندر تبدیلی' کی علامت ہے اور طاقت کی گردش اور مستکبروں کے زوال کے حوالے سے سنت الٰہیہ کے مظاہر میں سے ہے۔

اس کے برعکس، زہران ممدانی جیسی شخصیت کی جیت - جو ایک نوجوان تارک وطن ہے، انصاف پسندی کی طرف مائل ہے، اور اقلیتوں کی حمایت کا نعرہ لگاتا ہے - لبرل نظام میں دراڑ کی علامت سمجھی جاتی ہے؛ گوکہ وہ ان ہی سیکولر اور لبرل ڈیموکریٹک نظام اقدار کے تحت کام کرتا ہے؛ لیکن یہ اندرونی تضاد مغربی تہذیب کے زوال کی علامت ہے جو اپنے آپ کو اندر سے کھا رہی ہے۔
2۔ امام صادق (علیہ السلام) کی حدیث؛ جاہلانہ جہاد اور تقویٰ کے بغیر نصرت
وسائل الشیعہ میں امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے مروی ہے:
"فَلَقَدْ لَعَمْرِي جَاءَ اَلْأَثَرُ أَنَّ اَللَّهَ تَعَالَى يَنْصُرُ هَذَا اَلدِّينَ بِأَقْوَامٍ لاَ خلاَقَ لَهُم؛ [2]
اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے ذریعے اس دین کی نصرت کرتا ہے جو خیر اور دین سے فیض یاب نہیں ہیں"۔
امام صادق (علیہ السلام) خبردار کر رہے ہیں کہ بعض اوقات اللہ اپنے دین کی مدد ایسے لوگوں کے ذریعے کرتا ہے جو تقویٰ اور نیکی سے محروم ہیں؛ اور یہ خود خدا کی حکمت کی نشانی ہے کہ وہ جہالت اور منافقت کے اندر سے بھی اپنی مرضی پوری کرنے کا ذریعہ فراہم کرتا ہے۔
زہران ممدانی، اگرچہ ظاہری طور پر مظلوموں اور اقلیتوں کی وکالت کرتا ہے اور صہیونیت کے خلاف موقف اختیار کرتا ہے، لیکن اس کے ثقافتی اور سماجی نظریات لبرل اقدار کے دائرے میں ہیں اور شریعت اسلامی کے بنیادی اصولوں کے مطابق نہیں ہیں۔ چنانچہ اس کی کامیابی کو ٹرمپ کے لئے ڈراؤنے خوابوں میں اس کی فتح کے طور پر تو سراہا جا سکتا ہے، لیکن اس کے طریقے اور فکر کی توثیق نہیں سمجھا جا سکتا، بلکہ اسے سنت الٰہیہ کا ایک مظہر سمجھنا چاہئے جس میں یہ سمجھنا چاہئے کہ مدد ایسے افراد اور گروہوں کے ذریعے ہوئی ہے جو خود اس کے مستحق نہیں ہیں۔ یہ وہ روایت ہے جو قوموں میں بیداری پیدا کرتی ہے اور تہذیبی منافقت کا پردہ چاک کرتی ہے۔
3۔ لبرل مغربی نظام کے زوال کی علامتیں
ممدانی کی کامیابی، اپنے تمام تضادات کے باوجود، مغربی تہذیب کے اندرونی بحرانوں کا آئینہ دار ہے۔ اس واقعے کے کئی معانی ہیں:
ٹرمپ ازم کے بیانیے کا زوال:
امریکی معاشرے نے دکھایا کہ اب وہ نسل پرستی، تارکین وطن کی مخالفت کی پالیسی اور 'انتہائی سرمایہ دارانہ نظام' کو قبول نہیں کرتا۔
وسیع سماجی احتجاج:
انتخابات میں اقلیتوں اور نوجوانوں کی بڑے پیمانے پر شرکت، امتیازی سلوک، عدم مساوات اور 'ساختی بدعنوانی' [3] کے خلاف ایک احتجاج تھا۔
نسلی تبدیلی:
مغرب کی نئی نسل کو انصاف اور انسانی تشخص کی تلاش ہے، اگرچہ وہ ہنوز لبرل ازم کے دائرے میں ہی مصروف عمل ہے۔
امریکہ کی بڑھتی ہوئی تنہائی: جیسا کہ انقلاب اسلامی کے رہبر معظم امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) نے فرمایا: ""آج امریکہ خطے کی قوموں کی نظر میں سب سے زیادہ قابلِ نفرت حکومت ہے۔"
یہ تبدیلیاں مغربی تہذیب کے اخلاقی اور روحانی جواز (اور قانونیت) کے بتدریج زوال کی علامت ہیں؛ ایک ایسی تہذیب جس نے روحانیت کو خارج اور مادیت کو مرکز بنا کر خود کو 'تشخص کے تعطل' سے دوچار کر دیا ہے۔
4۔ محاذ مزاحمت کے لئے مواقع اور انتباہات
اس رجحان کے تجزیے میں دو نقطہ ہائے نظر کو بیک وقت برقرار رہنا چاہئے:
موقع: مغربی معاشروں کے اندر سماجی بیداری آزاد اور محکوم و مستضعف قوموں کے لئے تحریک کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ انصاف کی آواز کا سنائی دینا، چاہے وہ سرمایہ دارانہ نظام کے دل ہی سے کیوں نہ ہو، خود انسان کی فطری خدا شناسی کی علامت ہے۔
انتباہ: یہ اجازت نہیں دی جانی چاہئے کہ سیکولر اور ابلاغیاتی نمونے "اسلام" کی تحریف شدہ تصویر بنا کر پیش کریں۔ حقیقی اسلام تقویٰ، ولایت اور عقلیت پر مبنی ہے، نہ کہ اخلاقی نسبتیت (Moral relativism) یا الٰہی اقدار میں نرمی پر۔
لہٰذا، اس قسم کی فتوحات کا تجزیہ بصیرت اور قرآنی پیمانوں کی بنیاد پر ہونا چاہئے تاکہ حق و باطل کے درمیان سرحد سے غفلت سبب نہ بنے۔
5۔ 'مکر الٰہی" کی سنت معاصر تاریخ میں
خدائے متعال اسی آیات کے آخر میں ارشاد فرماتا ہے:
﴿وَمَا يَمْكُرُونَ إِلَّا بِأَنْفُسِهِمْ وَمَا يَشْعُرُونَ؛ اور وہ یہ تدبیریں نہیں کرتے مگر خود اپنی ہی تخریب کے لئے، لیکن انہیں شعور نہیں ہے﴾ [4]
ظالموں کا مکر و فریب آخرکار ان ہی پر لوٹ آتے ہیں۔ ٹرمپ اور ٹرمپ ازم کا دھڑا، جو جدید دور میں "اکابرِ مجرمین" (بڑے مجرموں) کی واضح مثال ہیں؛ یہ سمجھتے تھے کہ میڈیا اور دولت کے ذریعے وہ قوموں کی مرضی کو اپنے قابو میں لا سکتے ہیں، لیکن خدا کی سنت نے ایسا انتظام کیا کہ اسی ڈھانچے کے اندر سے، انصاف اور مظلوموں کی حمایت کے نعرے کے ذریعے، انہیں شکست ہوئی۔
یہ اسی خدائی وعدے کی تکمیل ہے جس میں ظالم اپنے ہاتھوں اور اپنے نظام کے اندر سے زوال پذیر ہو جاتے ہیں: "مغربی تہذیب کے غروب" کی علامت اور "توحیدی تہذیب کا طلوع"۔
6۔ روحانیت سے عاری تہذیبوں کے زوال کا الٰہی وعدہ
انقلاب اسلامی کے رہبر معظم امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) فرماتے ہیں:
"آپ نوجوان وہ دن ضرور دیکھیں گے کہ یہ تہذیب یافتہ مغربی دنیا روحانیت کے فقدان کی وجہ سے تباہی اور بربادی سے دوچار ہوگی۔۔۔ جس دن یہ نتائج نظر آئیں گے کہ مزید اس کا علاج ممکن نہیں ہو گا، اور وہ دن مغربی تہذیب پر ضرور آئے گا۔" ۔۔۔
"آپ جان لیجئے کہ ترقی یافتہ اور تہذیب یافتہ معاشروں کی اخلاقی درندگی، ـ جو روحانیت سے بالکل خالی ہیں، ـ روز بروز بڑھتی جائے گی اور یہی وحشت اور درندگی آج کی مغربی تہذیب کے لئے سب سے بڑی کھائی ہے اور انہیں گرانے والی ہے۔" [5]
یہ تنبیہ ایک تاریخی تجزیہ بھی ہے اور ایک قرآنی خوشخبری بھی:
ارشاد خدائے متعال ہے:
"﴿أَلَمْ نُهْلِكِ الْأَوَّلِينَ * ثُمَّ نُتْبِعُهُمُ الْآخِرِينَ * كَذَلِكَ نَفْعَلُ بِالْمُجْرِمِينَ * وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ؛ کیا ہم نے [مجرموں میں سے] پہلوں کو ہلاک نہیں کر ڈالا * پھر ہم ان کے پیچھے دوسروں کو [بھی] بھیجیں گے * ہم ایسا ہی برتاؤ کرتے ہیں مجرموں کے ساتھ * ہلاکت ہو اس دن جھٹلانے والوں کے لئے﴾"۔ [6]
جو تہذیبیں ظلم، مکر و فریب، ناانصافی اور روحانیت کو نظر انداز کرکے، معرض وجود میں آتی ہیں، آخرکار اپنے ہی ہاتھوں منہدم ہو جاتی ہیں۔ مغربی تہذیب کے زوال کا مطلب اس کے لوگوں کی تباہی نہیں ہے، بلکہ مادیت پسندانہ بیانیے کے غلبے کا خاتمہ اور روحانیت اور انصاف کی طرف واپسی کے دور کا آغاز ہے۔
زہران ممدانی کی کامیابی کو 'الٰہی سنت' کے تناظر میں 'سمجھنا چاہئے'، رول ماڈل کے طور پرنہیں بلکہ تاریخی تبدیلیوں کی علامت کے طور پر۔ اس واقعے میں 'فتح و نصرت کی سنتِ الٰہیہ' 'ظالموں کے اپنے خلاف مکر کے ذریعے' واضح طور پر نمایاں ہے۔
یہ غروب ایک طلوع کی تمہید ہے: توحید، انصاف اور انسانی وقار و کرامت پر کی بنیاد پر ایک تہذیب کا طلوع۔ مؤمنوں پر فرض ہے کہ تقویٰ، بصیرت اور ولایت پر تکیہ کرتے ہوئے ان علامتوں سے سبق لیں اور نئی اسلامی تہذیب کی تعمیر کے راستے پر گامزن ہو جائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: آیت اللہ عباس کعبی
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ